پی پی ایل: ایک شاندارورثے کا احیاء

پی پی ایل: ایک شاندارورثے کا احیاء

پی پی ایل: ایک شاندارورثے کا احیاء

کراچی: 17 ستمبر 2020:  صفِ اوّل کی دریافتی و پیداواری کمپنی، پاکستان پیٹرولئیم لمیٹڈ (پی پی ایل) نے گزشتہ سات عشروں سے ملک میں توانائی کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔کمپنی ملک میں   گیس  کی پیداوار میں  20 فیصد سے زائدکا حصہ ڈالتی ہے۔ 

 پی پی ایل کے ایم ڈی و سی ای او معین رضاخان کا کہنا ہے " کمپنی کی 100 سالہ تاریخ اس کی پیشر و اور اہم شراکت داربرما آئل کمپنی سے منسلک ہے، جو کسی وقت میں برطانیہ میں قائم تھی اور 19 ویں صدی
 میں اس کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔پی پی ایل 1997 سے ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی بن گئی ہے جو کثیر القومی ورثے اورروایت میں رچی بسی ہوئی ہے جسے کمپنی ایکٹ 2017 کے تحت چلایا جاتا ہے۔"

   1952 میں پی پی ایل کی جانب سے 12 ٹرلین کیوبک فیٹ سے زائد ذخائرکی حامل سوئی میں س سب سے بڑی گیس فیلڈ کی دریافت، کمپنی اورملک دونوں کے لئے تاریخی سنگ ِمیل تھی۔یہ دریافت 
ملک کے قلب میں بلوچستان میں ہوئی جو سند ھ اور پنجاب سے بھی قریب تھی۔جس کی بناء پر بنیادی منبع و تنصیب کے ساتھ پورے ملک میں گیس کے تقسیمی نظام کا مرکز بن گئی۔ایک وقت میں، سوئی واحد پیداواری فیلڈ تھی اور اپنی پیداوار کی بلند ترین سطح پر اعلیٰ معیار کی تقریباًیومیہ 1 بی سی ایف پیداوار دے رہی تھی۔اس کے بعد 1955 میں کراچی اور پھرراولپنڈی کے بعد پورے ملک کو گیس فراہم کی گئی۔

سوئی کی دریافت نے جنوبی خطے میں دریافتی سرگرمیوں کو جلا دی کیونکہ اس سے پہلے شمال میں صرف پوٹوہار کا خطہ ہی ای اینڈ پی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔

پی پی ایل نے سوئی کے بعد اہم دریافتوں کا تسلسل قائم رکھا۔ان میں زِن، اوُچ، خیر پوراور1959 میں حالیہ آپریٹڈ اثاثوں کندھ کوٹ اور مزارانی کے بعد1978 میں آدہی میں تیل و گیس کی دریافت   شامل ہیں جو اب تک پیداوار دے رہی ہیں۔1986 کے اوائل میں پی پی ایل نے اپنے کنوئیں کندھ کوٹ9- کے ذریعے قادر پور میں 6 ٹرلین کیوبک فیٹ کی فیلڈ کی موجودگی کی تصدیق کی۔

بعد ازاں، حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن کو شامل کرکے اورگیس کے مالیاتی معاہدے کے ذریعے1997 میں سوئی میں کمپریسر پلانٹ کی تنصیب کے ساتھ ساتھ سوئی، کندھ کوٹ او ر آدہی      میں پیداواری کنوؤں کی کھدائی کے لئے تعاون کیا۔ بی او سی نے دنیا بھر میں ای اینڈ پی کے شعبے میں سرمایہ کاری ختم کر دی اور حکومت ِ پاکستان کو پی پی ایل میں اپنے اثاثے فروخت کردیئے۔

یہ 2009کی بات ہے جب پی پی ای ایل کی حالیہ کامیاب کوششوں کا اس وقت سلسلہ شروع ہوا جب اُس وقت کے جنرل مینیجر ایکسپلوریشن معین رضا خان کی قیادت میں پی پی ایل نے 14 بلاکس حاصل  کئے اور 2013 کی بولی میں 11 بلاکس کا اضافہ کیا، اس طرح48000 مربع کلومیٹر کادریافتی رقبہ حاصل کر لیا۔

معین رضاخان کا کہنا ہے کہ" پی پی ایل نے 2012سے اب تک آپریٹڈ بلاکس میں 63دریافتی کنوئیں کھودے، جس کے نتیجے میں 22 دریافتیں ہوئیں۔ان میں کامیابی کا تناسب 35 فیصد رہا۔جس    سے تقریباً 2.764 ٹی سی ایف گیس اور لگ بھگ127 ایم بی بی ایل تیل حاصل ہوئے"۔ان میں سے صرف 11 دریافتیں 2009 میں حاصل کئے گئے گمبٹ ساؤتھ بلاک میں ہوئیں۔ جو اس وقت    تین پیداواری فیلڈز سے یومیہ 100 بی سی ایف سے زائد گیس، 1100 بیرل تیل اور 15 ملین ٹن ایل پی جی کی پیدا واردے رہا ہے۔

معین رضا خان نے کہا "پاکستا ن میں ہائیڈروکاربن کے حامل معروف بیسن/علاقے پہلے ہی دریافت کئے جاچکے ہیں اور ان سے پیداوار حاصل کر لی گئی ہے۔ اس لئے سرحدی علاقوں اورسمندر میں 
 دریافتوں کی سرگرمیوں کی  اہمیت بڑھ گئی ہے۔جس کے لئے کثیر سرمایہ درکار ہے جبکہ گردشی قرضوں کی وجہ سے رقم کی کمیکا بحران حقیقی چیلنج ہے جس کا پوری صنعت بالخصوص پی پی ایل کو سامنا ہے۔"

پی پی ایل کو انتہائی قابل، مخلص اور وفادار عملے کی خدمات حاصل ہیں جو COVID-19 کی حالیہ عالمگیر وباء کے باوجود توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کمپنی کی پیدواور میں نہ ہونے کے برابر کمی 
کوممکن بناکرایک اہم سنگ ِ میل کوعبور کرنے کے لئے جانفشانی کے ساتھ کام انجام دیتے رہے۔

  "پی پی ایل کی انتظامیہ ملٹی نیشنل طرز پر کام کرنے کے عہد پرکاربند ہے۔ کمپنی کے عملے کی جانب سےCOVID-19 کی عالمگیر وباء کے دوران مثبت ردّعمل ادارے کو ترقی کے اس سفر کی جانب لے      جانے کی نشاندہی کرتا ہے۔"